غزہ شہر
فلسطین کی ریاست غزہ پٹی میں قدیم شامی میٹروپولیس اور جدید شہر / From Wikipedia, the free encyclopedia
غزّہ (تلفظ: عربی: غَزَّة) جسے غزہ شہر بھی کہا جاتا ہے، غزہ پٹی کے شمال میں واقع ایک فلسطینی شہر ہے جو 2023ء کی اسرائیل حماس جنگ سے پہلے 2017ء میں 590,481 نفوس پر مشتمل دولت فلسطین کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور فلسطینیوں کی سب سے بڑی بستی تھی۔ غزہ شہر بحیرہ روم کے مشرقی ساحل کے جنوبی کنارے پر اور یروشلم سے 78 کلومیٹر کی مسافت پر اس کے جنوب مغربی سمت پر آباد ہے۔ انتظامی لحاظ سے یہ شہر محافظہ غزہ کا مرکز بھی ہے۔ شہر کا کل رقبہ محض 56 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی بنیاد پر یہ گنجان آبادی والے شہروں میں سر فہرست سمجھا جاتا ہے۔
غزہ | |
---|---|
(عربی میں: غزة) | |
غزہ شہر کا ایک عمومی منظر | |
بلدیہ غزہ کا لوگو | |
تاریخ تاسیس | تقریباً 1500 ق م 1893ء میں بلدیہ کا قیام |
نقشہ | |
انتظامی تقسیم | |
ملک | فلسطین[1] |
دار الحکومت برائے | |
محافظہ | محافظہ غزہ |
حکام | |
صدر بلدیہ | یحی سراج |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 31.51667°N 34.48333°E / 31.51667; 34.48333 |
رقبہ | 45 کم² |
بلندی | |
آبادی | |
تعداد آبادی | 590,481 افراد (اعداد و شمار 2017[2]) |
کل آبادی | 677,799 افراد[3] (2023ء کا تخمینہ) |
مزید معلومات | |
جڑواں شہر | |
اوقات | EET (مشرقی یورپ کا وقت +2 گرینوچ) |
گرمائی وقت | +3 گرینوچ |
رمزِ ڈاک | |
فون کوڈ | 7 00970 [13] |
قابل ذکر | |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | www.mogaza.org |
جیو رمز | 281133 |
درستی - ترمیم |
کم از کم پندرہویں صدی ق م سے آباد[14] اس شہر غزہ پر اس کی پوری تاریخ میں مختلف قوموں اور سلطنتوں کا غلبہ رہا ہے۔ قدیم مصریوں نے تقریباً 350 سال تک اس پر حکومت کی، اس کے بعد فلسطی قوم نے اسے اپنے فلسطیا کا حصہ بنا لیا۔ رومی سلطنت کے تحت غزہ نسبتاً مامون رہا اور اس زمانہ میں اس کی بندرگاہ کو فروغ نصیب ہوا۔ 635 عیسوی میں یہ خطۂ فلسطین کا وہ پہلا شہر بنا جسے خلافت راشدہ کی فوج نے فتح کیا اور اس کے بعد جلد ہی اس شہر نے اسلامی قانون کے ایک مرکز کی حیثیت سے ترقی کی۔ تاہم جب 1099ء میں یہاں صلیبی ریاست قائم ہوئی تو غزہ تباہ حال تھا۔ بعد کی صدیوں میں غزہ کو منگول حملوں سے لے کر شدید سیلاب اور ٹڈیوں کے غول تک کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سولہویں صدی تک آتے آتے یہ شہر ایک گاؤں میں تبدیل ہو گیا اور اس دوران میں یہ شہر سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور حکومت کے نصف اول میں رضوان خاندان غزہ پر حاکم تھا۔ اس وقت یہ شہر تجارت کا مرکز تھا اور یہاں امن و خوش حالی عام تھی۔ غزہ کی بلدیہ 1893ء میں قائم ہوئی۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران میں غزہ ذیلی ضلع برطانوی افواج کے قبضے میں چلا گیا اور انتداب فلسطین کا حصہ بن گیا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں مصر نے نو تشکیل شدہ غزہ پٹی کے علاقے کا انتظام حاصل کیا اور شہر میں کئی اصلاحات کی گئیں۔ سنہ 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل غزہ پر قابض ہوا اور 1993ء میں اس شہر کو نئی تشکیل شدہ فلسطینی قومی عملداری میں منتقل کر دیا گیا۔ 2006ء کے انتخابات کے بعد کے مہینوں میں فتح اور حماس کے فلسطینی سیاسی دھڑوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں غزہ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس کے بعد غزہ پٹی اسرائیل کی قیادت میں مصری حمایت یافتہ ناکہ بندی کا شکار تھی۔[15] اسرائیل نے جون 2010ء میں اشیائے ضروری کی اجازت دیتے ہوئے ناکہ بندی میں نرمی کی اور مصر نے 2011ء میں رفح سرحدی گذرگاہ کو پیدل چلنے والوں کے لیے دوبارہ کھول دیا۔[15][16]
غزہ کی بنیادی اقتصادی سرگرمیاں یہاں موجود چھوٹے درجہ کی صنعتیں اور زراعت ہیں۔ تاہم ناکہ بندی اور بار بار ہونے والے تنازعات نے معیشت کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔[17] غزہ کے فلسطینی باشندوں کی اکثریت مسلمان ہے جبکہ مسیحی اقلیت بھی یہاں بستی ہے۔ غزہ کی آبادی بہت کم عمر ہے، جس میں تقریباً 75% کی عمر 25 سال سے کم ہے۔ یہ شہر فی الحال 14 رکنی میونسپل کونسل کے زیر انتظام ہے جو حماس کے زیر انتظام ہے۔
مارچ 2024ء کے بعد آپریشن طوفان الاقصیٰ کے موقع پ اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی کے شمالی شہر اور آس پاس کے علاقوں کے بڑے حصوں پر بمباری کی، جس سے بہت سی عمارتیں اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔ تقریباً تمام مکین شہر چھوڑ چکے ہیں یا جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں یا شدید بمباری کی زد میں آکر لقمۂ اجل ہو چکے ہیں۔ چنانچہ آبادی کے پرانے ریکارڈ یا تخمینہ اب پرانا ہو چکا ہے۔[18]