سعودی عرب
جزیرہ نما عرب کا اسلامی ملک / From Wikipedia, the free encyclopedia
سعودی عرب یا سعودی عربیہ (رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ) مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسے ایشیا کا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اور مشرق وسطی کا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میں بحیرہ احمر سے ملتی ہے۔ شمال میں اردن، عراق اور کویت؛ مشرق میں خلیج فارس، قطر اور متحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میں عمان؛ اور جنوب میں یمن۔ بحرین مشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میں خلیج عقبہ سعودی عرب کو مصر اور اسرائیل سے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ریاض ہے۔ یہ ملک مکہ اور مدینہ کا گھر ہے، جو اسلام کے دو مقدس ترین شہر ہیں۔
Kingdom of Saudi Arabia | |
---|---|
شعار: | |
ترانہ: | |
دار الحکومت and largest city | ریاض 24°39′N 46°46′E |
سرکاری زبانیں | عربی |
نسلی گروہ (2014ء)[1][lower-alpha 1] | عرب 90 فیصد
|
مذہب (2010)[2] | اسلام 94.2 فیصد
مسیحیت 4.4 فیصد ہندو مت 1.1 فیصد بدھ مت 0.3 فیصد نوٹ: سعودی باشندے 100 فیصد مسلمان ہیں۔ یہ اعداد و شمار غیر ملکی آبادی کے ساتھ ہے۔ |
آبادی کا نام | سعودی |
حکومت | بادشاہت |
• شاہ | سلمان بن عبدالعزیز |
• ولیعہد شہزادہ | محمد بن سلمان |
مقننہ | none[lower-alpha 2] |
قیام | |
• درعیہ کی امارات | 1727ء |
• نجد کی امارات | 1824ء |
• ریاض کی امارات | 13 جنوری، 1902ء |
• مملکت سعودی عرب کے قیام کا اعلان | 23 ستمبر، 1932ء |
• اقوم متحدہ میں شمولیت | 24 اکتوبر، 1945ء |
• موجودہ دستور کی منظوری | 31 جنوری، 1992ء |
رقبہ | |
• کل | 2,149,690[5] کلومیٹر2 (830,000 مربع میل) (بارھواں) |
• پانی (%) | 0.7 |
آبادی | |
• 2022ء مردم شماری | 32,175,224[6] (چھیالیسواں) |
• کثافت | 15/کلو میٹر2 (38.8/مربع میل) (174 ویں) |
جی ڈی پی (پی پی پی) | 2023ء تخمینہ |
• کل | 2246 کھرب امریکی ڈالر [7] (ستراہواں) |
• فی کس | 68,452 امریکی ڈالر [7] (15th) |
جی ڈی پی (برائے نام) | 2023 تخمینہ |
• کل | $1.069 trillion[7] (19th) |
• فی کس | $32,586[7] (34th) |
جینی (2013) | 45.9[8] میڈیم |
ایچ ڈی آئی (2021) | 0.875[9] ویری ہائی · 35th |
کرنسی | سودی ریال (SR)[lower-alpha 3] (SAR) |
منطقۂ وقت | یو ٹی سی+3 (AST) |
تاریخ فارمیٹ | دن/مہینہ/سال (ہجری) |
ڈرائیونگ سائیڈ | دائیں |
کالنگ کوڈ | +966 |
آیزو 3166 کوڈ | SA |
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈی |
|
قبل از اسلام کا جزیرہ نما عرب، وہ علاقہ جس پر موجودہ سعودی عرب مشتمل ہے، کئی قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مقام تھا۔ سعودی عرب میں قبل از تاریخ انسانی سرگرمیوں کے کچھ ے ابتدائی نشانات پائے جاتے ہیں۔ دین اسلام چھٹی صدی عیسوی (571ء) میں ابھر کر سامنے آیا اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔
چھٹی صدی کے اوائل میں، اللہ کے بھیجے ہوئے آخری رسول، محمد ﷺ نے جزیرہ نما عرب کی آبادی کو اکٹھا کیا اور ایک واحد اسلامی مذہبی حکومت قائم کی۔ سنہ 632ء میں ان کے وصال کے بعد ان کے پیروکاروں نے بیس سال کے اندر اندر، مغرب میں جزیرہ نما آئبیریا سے لے کر مشرق میں وسطی اور جنوبی ایشیا کے کچھ حصوں تک، ایک وسیع علاقے کو فتح کرتے ہوئے، تیزی سے جزیرہ نما عرب سے باہر اسلام کی روشنی کو پھیلا دیا اور خلافت راشدہ(632–661) کے علاوہ اموی(661–750)، عباسی (750–1517) اور فاطمی(909–1171)خلافت کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ اور یورپ میں متعدد دیگر خاندانوں کی بنیاد رکھی۔
جدید دور کے سعودی عرب کا علاقہ پہلے بنیادی طور پر چار الگ الگ تاریخی علاقوں پر مشتمل تھا: حجاز، نجد اور مشرقی عرب کے کچھ حصے (الاحساء) اور جنوبی عرب (عسیر)۔ مملکتِ سعودی عرب کی بنیاد شاہ عبدالعزیز (مغرب میں ابن سعود کے نام سے مشہور) نے 1932 میں رکھی تھی۔ انھوں نے سنہ 1902ء میں اپنے خاندان کے آبائی علاقے ریاض پر قبضے کے ساتھ فتوحات کے سلسلے کے ذریعے چاروں خطوں کو ایک ریاست میں متحد کیا۔ سعودی عرب اس کے بعد سے ایک مطلق العنان بادشاہت رہا ہے، جہاں سیاسی فیصلے بادشاہ، وزراء کی کونسل اور ملک کے روایتی اشرافیہ کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ سنی اسلام کے اندر انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی تحریک کو سنہ 2000ء کی دہائی تک "سعودی ثقافت کی ایک اہم خصوصیت" کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ سنہ 2016ء میں، سعودی عرب کی حکومت نے انتہائی قدامت پسند وہابی مذہبی اشرافیہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے اقدامات کیے، سماجی ترقی کو بڑھانے اور بحال کرنے اور مزید مضبوط اور موثر معاشرہ بنانے کی کوشش میں سعودی وژن 2030ء کے اقتصادی پروگرام کا آغاز کیا۔ اپنے بنیادی قانون میں، سعودی عرب خود کو ایک خود مختار عرب اسلامی ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے جس میں اسلام کو سرکاری مذہب، عربی کو سرکاری زبان اور ریاض دار الحکومت کہا جاتا ہے۔
پیٹرولیم سنہ 1938ء میں دریافت ہوا اور اس کے بعد مشرقی صوبے میں کئی دیگر دریافتیں ہوئیں۔ سعودی عرب اس کے بعد سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک (امریکا کے بعد) اور دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ یہاں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تیل کے ذخائر اور چوتھے بڑے گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ مملکت کو عالمی بینک کی اعلی آمدنی والی معیشت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے اور یہ واحد عرب ملک ہے جو جی20 بڑی معیشتوں کا حصہ ہے۔ ریاست کو مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میں یمنی خانہ جنگی میں اس کا کردار، اسلامی دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی اور اس کا انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ، بشمول سزائے موت کا ضرورت سے زیادہ اور اکثر ماورائے عدالت شامل ہے۔
سعودی عرب کو علاقائی اور درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی معیشت مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی ہے۔ عمومی جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی اٹھارویں سب سے بڑی معیشت اور فی کس پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی سترویں بڑی معیشت ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ انسانی ترقی کے اشاریہ والے ملک کے طور پر، یہ مفت اعلی تعلیم، ٹیکس فری آمدنی اور مفت آفاقی نظامِ صحت پیش کرتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کی تیسری بڑی تارکین وطن کی آبادی کا مرکز ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی سب سے نوجوان آبادی میں سے ایک بھی ہے، اس کی 32.2 ملین کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 25 سال سے کم عمر کا ہے۔ خلیج تعاون کونسل کا رکن ہونے کے علاوہ سعودی عرب تنظیمِ اقوام متحدہ، تنظیمِ تعاونِ اسلامی، عرب لیگ، عرب تنظیم برائے ہوائی نقل و حمل اور تیل برآمد کرنے والے ممالکِ کی تنظیم، اوپیک کا ایک فعال اور بانی رکن ہے۔