ব্যবহারকারী:মানসূর আহমাদ/খেলাঘর
From Wikipedia, the free encyclopedia
اسلام اور یہودیت کے تعلق کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ نما عرب میں طلوع اسلام اور اس کی اشاعت سے ہوتا ہے۔ دونوں مذاہب میں متعدد مشترک اقدار، ہدایات اور اصول بیان کیے گئے ہیں۔[1] حتیٰ کہ یہودی تاریخ بھی اسلام کی تعلیمات ہی کا حصہ سمجھی جاتی ہے کیونکہ قرآن میں ایسے کئی انبیا کا تذکرہ ہے جن کو مسلمان اپنا پیغمبر تسلیم کرتے ہیں اور وہ یہود کے بھی پیغمبر ہیں۔ بنی اسرائیل کو اسلام میں ایک مذہبی گروہ مانا جاتا ہے۔ موسی جو یہودیت کے سب سے اہم پیغمبر ہیں، اسلام میں بھی ان کو نبی تسلیم کیا گیا ہے اور ان کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے۔[2] بلکہ قرآن میں موسی بن عمران کا تذکرہ دیگر انبیا کے مقابلے میں سب سے زیادہ دفعہ وارد ہوا ہے اور ان کے واقعات بکثرت بیان کیے گئے ہیں۔ بلکہ کسی بھی نبی سے زیادہ موسی کے واقعات مذکور ہیں۔[3] قرآن میں بنی اسرائیل سے متعلق 43 حوالے[4] اور احادیث میں متعدد بار بنی اسرائیل کا ذکر ملتا ہے۔ بعد میں موسی بن میمون اور دیگر ربیوں نے اسلام اور یہودیت پر بحث کی اور ان دونوں مذاہب کے باہمی تعلقات کو پیش کیا۔ یہاں تک کہ موسی بن میمون پر یہ الزام بھی لگا کہ وہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو چکے ہیں۔[5]
چونکہ اسلام اور یہودیت کا منبع ایک ہی شخصیت یعنی پیغمبر ابراہیم کی ذات ہے، اس لیے دونوں مذاہب ابراہیمی مذاہب کا حصہ ہیں اور اسی بنا پر اسلام اور یہودیت میں کئی مشترک پہلو ہیں، چنانچہ اسلام کے بنیادی عقائد، مذہبی نقطہ نظر، فقہ اور عبادات کے بہت سے پہلو یہودیت کے مماثل معلوم ہوتے ہیں۔[1] اسی یکسانی اور عالم اسلام میں رہنے والے یہودیوں پر مسلمانوں کی تہذیب اور فلسفہ کے اثر کی وجہ سے ان دونوں مذاہب میں بعد کے 1400 برسوں میں ظاہری، نظریاتی اور سیاسی مناسبت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان میں سب سے پہلی اور قابل ذکر مناسبت مخیریق کا اسلام میں پہلا وقف ہے جب انہوں نے اپنا سارا مال اور باغات پیغمبر اسلام کو ہبہ کر دیا تھا جسے پیغمبر نے مدینہ میں تقسیم کر دیا اور مخیریق جنگ احد میں اسلام کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ دوسرا قابل ذکر واقعہ سنہ 1027ء کا ہے جب سموئیل بن نغریلہ طائفہ غرناطہ کے اہم مشیر اور فوجی جنرل مقرر ہوتے ہیں۔ [6]